صدر سید ابراہيم رئيسی نے پیر کے روز پاکستان کے اپنے دورے میں دونوں ملکوں کے اعلی وفود کے ساتھ ایک نشست میں شرکت کی۔
صدر نے اس نشست میں کہا کہ تاريخی تعلقات، پڑوس میں واقع ہونے اور دینی اشتراکات کی وجہ سے تہران و اسلام آباد کے تعلقات اٹوٹ اور بے حد گہرے ہيں تاہم دونوں ملکوں کے تعلقات، موجودہ گنجائشوں کے لحاظ سے کم ہیں۔ اس لئے مختلف تجارتی، معاشی و ثقافتی شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں فروغ کی ضرورت ہے۔
صدر ایران نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی ملکوں، پڑوسیوں اور مشترکہ موقف رکھنے والے ملکوں کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات ان تمام پہلوؤں سے اہم ہیں۔
انہوں نے کہا: ہمیں یقین ہے کہ جو گنجائش ہے اس کے پیش نظر باہمی تعلقات میں بڑا انقلاب لایا جا سکتا ہے اس لئے ہم نے پہلے قدم کے طور پر دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات کو 10 ارب ڈالر تک پہنچانے پر اتفاق کیا ہے۔
صدر ابراہیم رئيسی نے، انرجی سمیت مختلف میدانوں میں ایران و پاکستان کے تعاون کی گنجائشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے سیکوریٹی اور خاص طور پر سرحدوں پر امن و امان کو بے حد اہم قرار دیا اور کہا: دونوں ملک، سرحدوں پر امن و پائيداری، دہشت گردی کی مختلف شکلوں کے خلاف جنگ اور بغیر امتیاز کے انسانی حقوق کے تحفظ کی حمایت خاص طور پر فلسطین کے مظلوم عوام کے دفاع کے بارے میں مشترک اور ایک دوسرے سے قریب نظریات کے حامل ہيں۔
اس نشست میں پاکستان کے وزير اعظم شہباز شریف نے بھی کہا کہ صدر ایران کے دورے سے پاکستان کی عزت افزائی ہوئی ہے ، دونوں ملکوں کے تعلقات بے حد مضبوط اور دوستانہ ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کی ترقی کا باعث بنیں گی ۔
اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے دونوں ملکوں کے درمیان طویل مشترکہ سرحدوں کا ذکرکرتے ہوئے ، دہشت گردی کے خلاف ٹھوس جنگ، سرحدوں پر سیکوریٹی کی صورت حال میں بہتری کی کوشش اور اسی طرح سرحدی علاقوں میں تجارت کو بہتر بنانے کا عزم ظاہر کیا۔
انہوں نے پاکستان کی حکومت اور قوم کی جانب سے رہبر انقلاب اسلامی کو تہہ دل سے سلام بھیجا اور علاقائی ممالک خاص طور پر پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات میں فروغ کے سلسلے میں سید ابراہیم رئیسی کی حکمت عملی اور سوجھ بوجھ کی تعریف کی۔
آپ کا تبصرہ